Saturday, December 20, 2008

دادو کینال، انڈس ڈولفن کو بچا لیا

انڈس ڈولفن
ڈولفن کو جمعرات کے روز دادو کینال سے زندہ بچا لیا گیا ہے

سندھ میں جنگلی حیات کے تحفط کے لیے کام کرنے والے ادارے نے دریائے سندھ میں مردہ پائی گئیں نایاب نسل کی دو انڈس ڈولفن کا پوسٹ مارٹم کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ تیسری ڈولفن کو جمعرات کے روز دادو کینال سے زندہ بچا لیا گیا ہے۔

یہ دونوں نایاب ڈولفن تین روز کے وقفے سے مختلف کینالوں میں سےمردہ حالت میں ملی ہیں۔ حکام کے بقول پوسٹ مارٹم کے بعد انڈس ڈولفن کی اموات کی درست وجہ معلوم ہوسکےگی۔

جنگلی حیوانات کے تحفظ کےصوبائی کنزرویٹر حسین بخش بھاگت نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کہیں مختلف صنعتی اداروں کے فضلے کی وجہ سے دریائے سندھ کا پانی آلودہ تو نہیں ہوگیا ہے؟ ان کا کہنا تھا بہتے ہوئے تازہ پانی میں کوئی بھی مچھلی یا انڈس ڈولفن کی موت واقع نہیں ہوتی۔

حکام کےمطابق پوسٹ مارٹم کے لیے انہیں صرف ایک مردہ انڈس ڈولفن مل سکی ہے جس کو بعد میں مٹی کے ڈھیر میں دفنا دیا جائیگا تاکہ دو تین ماہ بعد اس کی ہڈیوں کا پنجرا حاصل کیا جا سکے جو تحقیق کے لیے کسی یونیورسٹی یا ادارے میں استعمال کیا جائیگا۔

انڈس ڈولفن کے تحفظ و افزائش کے مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ہر سال دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں ان کی اموات واقع ہوتی ہیں۔ جنگلی حیات کے حکام کے مطابق دو سال قبل تین انڈس ڈولفن مردہ پائی گئی تھیں جو دریائے سندھ کے پانی کے ساتھ پنجاب کی حدود میں سے سندھ میں گڈو بیراج کی طرف بہتی آ رہی تھیں۔

انڈس ڈولفن
پاکستان میں انڈس ڈولفن کی کل تعداد آٹھ سو اکیس کے قریب بتائی جاتی ہے

حسین بخش بھاگت کے مطابق پانچ سال قبل تو انہوں نے پنتالیس انڈس ڈولفن دریائے سندھ سےمردہ حالت میں نکالی تھیں۔ بھاگت کا کہنا ہے کہ تب ان کی موت کی وجہ پانی کی کمی اور چھوٹی مچھلیوں والی خوارک کی عدم دستیابی تھی۔

بقول بھاگت انڈس ڈولفن دریائے سندھ میں وہاں اپنا بسیرا کرتی ہیں جہاں انہیں زیادہ گہرا پانی ملتا ہے جس میں سے وہ اپنی چھوٹی مچھلیوں والی خوراک تلاش کرتی ہیں اور با آسانی سانس لے سکتی ہیں۔

دریاء سندھ میں سکھر بیراج کے روہڑی کینال میں گزشتہ ہفتے ایک انڈس ڈولفن دو دنوں تک پھنسی رہی اور مقامی لوگوں نے ڈولفن کو کینال کے ریگولیٹر سے نکال کر باہر پھینک دیا۔ جبکہ تین دن بعد سانگھڑ ضلع کےمٹھراؤ کینال سے ایک مادہ انڈس ڈولفن مردہ پائی گئی جس کا وزن پینتالیس کلوگرام تھا۔

پاکستان میں انڈس ڈولفن کی محدود تعداد دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر بیراج کےدرمیانی حصے میں پائی جاتی ہیں جہاں مقامی سندھی زبان میں اس کو اندھی بلہن یا نابینا ڈولفن کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانی کے مخالف سمت میں اپنا سفر جاری رکھتی ہیں اور چھوٹی مچھلیاں اور دریا کا گہرا پانی ان کی زندگی ہے۔

انڈس ڈولفن کی نسل پاکستان میں تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور ان کی پاکستان میں کل تعداد آٹھ سو اکیس کے قریب بتائی جاتی ہے۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ انیس سو بہتر کے تحت انڈس ڈولفن کا شکار ممنوعہ ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو دو سال کی قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔

ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے آئی یو سی این نے انڈس ڈولفن کو نایاب نسلوں کی جنگلی حیات کی اپنے ریڈ ڈیٹا بک میں دو ہزار دو میں شامل کیا تھا۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈس ڈولفن کی نایاب نسل کی افزائش کے لیے حکومتی سطح پر بے دلی سے کام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انڈس ڈولفن کی شرح پیدائش تیس سال میں آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی۔

No comments:

Post a Comment